*تا جر وں نے فنا نس ایکٹ کے 37 اے اور 37 بی 21(S)کو کاروبار و صنعت کیلئے تباہ کن اور خطر نا ک قر ار*
*حکومت سے فوری طور پر کاروبار دشمن شقوں کے خاتمے کا مطالبہ: صدر فضل مقیم خان*
*پشاور14جو لا ئی2025*
سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر فضل مقیم خا ن نے حال ہی میں منظور شدہ فنانس ایکٹ 2025 کے ذریعے نافذ کیے گئے کاروبار دشمن اقدامات کے خلاف 19 جولائی 2025 کو ہونے والی ملک گیر پرامن ہڑتال کی بھرپو حمایت کا اعلان کیا ہے۔پیر کے روز صدر سر حد چیمبر فضل مقیم خان نے سینئر نا ئب صدر عبد الجلیل جان،چیر مین انجمن تاجران پشاورشوکت علی خان، صدر انجمن تاجران پشاورحاجی محمد افضل ٗ سرحد چیمبر کے سابق صدور زاہداللہ شنواری ٗ ٗ فواد اسحق ٗ ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین ٗ جنید الطاف ٗ ندیم رؤف ٗعبا س فواد عظیم ٗ مجیب الرحمان ٗ سجاد ظہیر ٗسیف اللہ ٗ عبدالنصیر ٗ شمس الرحیم ٗ عدنان ناصر ٗآفتاب اقبال ٗ حسن زاہد ین ٗ سابق سینئر نائب صدور نعیم بٹ ٗثناء اللہ خان ٗ عمران خان مہمند ٗ سابق نائب صدر جاوید اختر اور صدر گل ٗ فیض رسول ٗ فضل واحد ٗ احسان اللہ ٗ منور خورشید ٗ سکندر اقبال ٗ مشتاق احمد ٗ پرویز خٹک ٗ قراۃ العین ٗ پیر دلاور ٗ طاہر نواز ٗسرحد چیمبر کے سیکرٹری جنرل مقتصد احسن ٗسمیت تاجروں اور صنعتکاروں اور دیگر کے ہمر اہ ایک پْر ہجو م پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا چیمبر صدر فضل مقیم خان نے یکم جولائی 2025 سے نافذ العمل فنانس ایکٹ میں شامل خطرناک شقوں، با لخصو ص انکم ٹیکس آرڈیننس میں شامل کی گئی دفعات 37 اے اور 37 بی کو سخت اور تباہ کن قرار دیتے ہو ئے کہا ہے کہ فنانس ایکٹ میں ایک اور تشویشناک شق سیکشن 21(S) شا مل ہے جس کے تحت دو لاکھ روپے یا اس سے زائد کی کسی بھی نقد ادائیگی کو ٹیکس کی چھوٹ میں شمار نہیں کیا جائے گا چاہے وہ نقد رقم براہِ راست سپلائر کے اکاؤنٹ میں ہی کیوں نہ جمع کروائی گئی ہو۔ اس سے سپلائر کو پچاس فیصد خرچے کی کٹوتی کا سامنا کرنا پڑے گا جو سراسر غیر منصفانہ ہے۔سرحدچیمبر کے صدر فضل مقیم خان نے تمام سیلز ٹیکس رجسٹرڈ اداروں پر ای-بلٹی اور ڈیجیٹل انوائسنگ سسٹمز کے لازمی نفاذ پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایف بی آر پر تنقید کی کہ وہ ایک ایسے ملک میں پیچیدہ ڈیجیٹل نظام نافذ کرنا چاہتا ہے جہاں کمپیوٹر اور عمومی تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ٹیکس دہندگان کو ایف بی آر کے کام خود کرنے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے؟ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ اقدامات ٹیکس دہندگان اور ایف بی آر کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر دیں گے۔ ان کے مطابق تاجروں کو بیوروکریٹک رکاوٹوں کے بجائے پیداوار اور آمدنی بڑھانے پر توجہ دینے کے لیے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔صدر فضل مقیم خان نے فنانس بل کی منظوری سے قبل مشاورتی عمل کو نظرانداز کرنے پر بھی شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف بزنس کمیونٹی بلکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کی مخالفت کے باوجود فنانس بل کو جلدبازی میں منظور کر لیا گیا اور پہلے سے طے شدہ تجاویز کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔سر حد چیمبر کے صدر فضل مقیم خان نے وزیر اعظم پاکستان سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر سیکشنز 37 اے اور 37 بی کے تحت گرفتاری کے اختیارات، سیکشن 21(ایس) کے تحت 200,000 روپے سے زائد نقد لین دین پر عائد جرمانہ، ایس آر او 709 کے تحت ڈیجیٹل انوائسنگ کی لازمی شرط، اور سیکشن 40(C) کے تحت ای-بلٹیE-bilty) (کی لازمی شق واپس لیں۔انھوں نے سیلز ٹیکس سیکشن 8B کے تحت کمشنر FBR کو tax adjustment input کو مکمل طور پرنا منظور کر نے بھی نا جا ئز ا ختیار دیا گیا ہے جو کہ کسی صورت بھی قا بل قبو ل نہیں ہے۔انہوں نے برآمد کنندگان کو نارمل ٹیکس رجیم سے فائنل ٹیکس رجیم پر منتقل کرنے کابھی مطالبہ کیا۔انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ملک بھر کی بزنس کمیونٹی فوری اور مؤثر اصلاحات کی متفقہ طور پر مطالبہ کر رہی ہے۔ اگر حکومت نے اصلاحاتی اقدامات نہ کیے تو احتجاج کی یہ تحریک شدت اختیار کر سکتی ہے جس کے ملکی معیشت اور ریاست کے کاروباری طبقے سے تعلقات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔سر حد چیمبر کے صدرفضل مقیم خان نے و اضح کیا اگر ان ظالمانہ اور نقصان دہ شقوں کو فوری طور پر واپس نہ لیا گیا تو ہڑتال طویل ہو سکتی ہے اور کاروباری حضرات کو مجبوری کے تحت مزید سخت اقدامات جیسے کہ سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے جیسے فیصلے کرنے پڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیمبر کے ممبران کی اکثریت ایسے جذبات کا اظہار کر رہی ہے کیونکہ حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کی وجہ سے ان کا موجودہ معاشی ماحول پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔